ہوا کی پشت پہ کتنے نقوش کندہ ہیں
کہیں نفس کی لکیریں
کہیں بساط ہنر
حیات و موت کے پرتو
الم کی پرچھائیں
لہو کے رنگ میں ڈوبا ہوا فلک کا دھواں
کبھی زمین کا دامن غبار آلودہ
کبھی گرجتا ہوا سیل بے کراں لرزاں
مثال حرف تمنا یہ نقش مٹ نہ سکے
ہوا کی پشت پہ کب سے نقوش کندہ ہیں

نظم
ہوا کی پشت پر
حمید الماس