ہوا جب تیز چلتی ہے
شکستہ خواب جب مٹیالے رستوں پر
مراد امن پکڑتے ہیں
جھکی شاخوں کے ہونٹوں پر
کسی بھولے ہوئے نغمے کی تانیں
جب الٹتی ہیں
گزشتہ وہم کی آنکھیں مرے سینے میں گرتی ہیں
ستارے جب لرزتے ہیں
مری آنکھوں کی سرحد پر
افق دھند لانے لگتا ہے
مہک آتے دنوں کی پھیل جاتی ہے
مشام جاں میں اک منہ زور خواہش
موت بن کر جاگتی ہے جب
گزشتہ وہم کی آنکھیں مرے سینے میں گرتی ہیں
گلے جب وقت ملتے ہیں
ترے میرے زمانوں کے پرندے
اڑنے لگتے ہیں
سحر جب دھیمی دھیمی دستکوں میں
نیند کی جھولی میں گرتی ہے
میں تیرے ہاتھ
خوابوں کے پھسلتے لمس پر محسوس کرتا ہوں
ترے ہونٹوں کی لرزش
مجھ سے رخصت میں لپٹتی ہے
میں تجھ کو دیکھ سکتا ہوں
مجھے پھر مل سکے گا واہمہ
جس قید میں آ کر
مری عمریں سنورتی ہیں
وہ موسم جس میں تیرے نام کی خوشبو
مری سانسیں بھگوتی ہے
وہی اک شام
جس آنچل میں مرا دل دھڑکتا ہے
وہی اک زندگی جس میں
گزشتہ وہم کی آنکھیں مرے سینے میں گرتی ہیں
نظم
ہوا جب تیز چلتی ہے
ابرار احمد