ایک پتا گرا
تو نے آنسو بھری تند گالی سے جس کا سواگت کیا
ایک پتا گرا
خشک ہونٹوں پر اپنی زباں پھیر کر
تو نے اک بار پھر اپنی بنجر ہتھیلی کو آگے کیا
ایک پتا گرا
لال سورج
جو دن پھر پکے سیب کے روپ میں
تیرے سر پر لٹکتی ہوئی
بانجھ شاخوں کے جھولے سے چپکا رہا
اب کہاں ہے
وہ رنگوں کا طوفاں
تجھے جس کی خاطر ہتھیلی کی بنجر زمیں کو سجانا پڑا
اب کہاں ہے
لرزتا ہوا لال سورج تو کالے سمندر کی جھولی میں گر بھی چکا
لو وہ پتا گرا
نظم
ہتھیلی
وزیر آغا