وادی وادی صحرا صحرا پھرتا رہا میں دیوانہ
کوہ ملا
تو دریا بن کر اس کا سینہ چیر کے گزرا
صحراؤں کی تند ہواؤں میں لالہ بن کر جلتا رہا
دھرتی کی آغوش ملی
تو پودا بن کر پھوٹا
جب آکاش سے نظریں ملیں
تو طائر بن کے اڑا
غاروں کے اندھیاروں میں میں چاند بنا
اور آکاش پہ سورج بن کر چمکا
پھر بھی میں دیوانہ رہا
اپنے سپنوں خوابوں کی الٹی سیدھی تصویر بنائی
ٹیڑھی میڑھی لکیریں کھینچیں
لیکن جب اک حرف ملا
گویا نور کی کرنیں میرے دو ہونٹوں میں سمٹ آئی ہیں
میں یہ چراغ الہ دیں لے کر
غاروں کے اندھیاروں میں کھوئے ہوئے موتی ڈھونڈ رہا ہوں
نظم
حرف
اعجاز فاروقی