تحسین کے طالب نہیں اوصاف خداداد
آفاق ہلا دیتی ہے حق کیش کی فریاد
آباد کہاں حلقۂ شعری کی فضا میں
بت خانۂ مانی کہ صنم خانۂ بہزاد
مٹ جائے گا ایوان تفاخر کا تکلف
یک شعلۂ جوالہ ہے آہ دل ناشاد
ضرغام ہے روباہ کے زرین قفس میں
آزاد ہیں پابند گرفتار ہیں آزاد
غازی نے کہا لوٹ لو بت خانۂ دولت
صوفی نے کہا چھوڑ دو عشرت گہ شداد
تیزاب سیاست میں خودی جس کی ہوئی غرق
وہ کاغذی لعبت بنے کیا پیکر فولاد
حاجات کے بت خانۂ تزویر ہزاروں
بندوں نے ترے نام پہ کر ڈالے ہیں ایجاد
لٹ جاتا ہے ہر گام پہ عصمت کا خزانہ
دل کش بہت ہے مانا کہ ہر رقص پری زاد
جمہور کی تہذیب سے اخلاص ہے معدوم
امروز نئی نسل کو اللہ نہیں یاد
جمہور کی برکت سے ہوئے آدمی ننگے
سائنس نے سو فتنۂ محشر کئے ایجاد
نظم
حق کیش کی فریاد
بیباک بھوجپوری