EN हिंदी
ہمیں بھول جانا چاہیئے | شیح شیری
hamein bhul jaana chahiye

نظم

ہمیں بھول جانا چاہیئے

افضال احمد سید

;

اس اینٹ کو بھول جانا چاہیئے
جس کے نیچے ہمارے گھر کی چابی ہے

جو ایک خواب میں ٹوٹ گیا
ہمیں بھول جانا چاہیئے

اس بوسے کو
جو مچھلی کے کانٹے کی طرح ہمارے گلے میں پھنس گیا

اور نہیں نکلتا
اس زرد رنگ کو بھول جانا چاہئے

جو سورج مکھی سے علیحدہ دیا گیا
جب ہم اپنی دوپہر کا بیان کر رہے تھے

ہمیں بھول جانا چاہیئے
اس آدمی کو

جو اپنے فاقے پر
لوہے کی چادریں بچھاتا ہے

اس لڑکی کو بھول جانا چاہیئے
جو وقت کو

دواؤں کی شیشوں میں بند کرتی ہے
ہمیں بھول جانا چاہیئے

اس ملبے سے
جس کا نام دل ہے

کسی کو زندہ نکالا جا سکتا ہے
ہمیں کچھ لفظوں کو بالکل بھول جانا چاہئے

مثلاً
بنی نوع انسان