اگر ہمارے دکھوں کا علاج
نیند ہے
تو کوئی ہم سے زیادہ گہری نیند نہیں سو سکتا
اور نہ ہی اتنی آسانی اور خوبصورتی سے
کوئی نیند میں چل سکتا ہے
اگر ہمارے دکھوں کا علاج
جاگنا ہے
تو ہم اس قدر جاگ سکتے ہیں
کہ ہر رات ہماری آنکھوں میں آرام کر سکتی ہے
اور ہر دروازہ
ہمارے دل میں کھل سکتا ہے
اگر ہمارے دکھوں کا علاج
ہنسنا ہے
تو ہم اتنا ہنس سکتے ہیں
کہ پرندے، درختوں سے اڑ جائیں
اور پہاڑ ہماری ہنسی کی گونج سے بھر جائیں
ہم اتنا ہنس سکتے ہیں
کہ کوئی مسخرہ یا پاگل
اس کا تصور تک نہیں کر سکتا
اگر ہمارے دکھوں کا علاج
رونا ہے
تو ہمارے پاس اتنے آنسو ہیں
کہ ان میں ساری دنیا کو ڈبویا جا سکتا ہے
جہنم بجھائے جا سکتے ہیں
اور ساری زمین کو پانی دیا جا سکتا ہے
اگر ہمارے دکھوں کا علاج
جینا ہے
تو ہم سے زیادہ با معنی زندگی
کون گزار سکتا ہے
اور کون ایسے سلیقے اور اذیت سے
اس دنیا کو دیکھ سکتا ہے
اگر ہمارے دکھوں کا علاج
بولنا ہے
تو ہم ہوا کی طرح گفتگو کر سکتے ہیں
اور اپنے لفظوں کی خوشبو سے
پھول کھلا سکتے ہیں
اور اگر تم کہتے ہو:
ہمارے دکھوں کا علاج کہیں نہیں ہے
تو ہم چپ رہ سکتے ہیں
قبروں سے بھی زیادہ
نظم
ہمارے دکھوں کا علاج کہاں ہے
ابرار احمد