وہ اک شخص جس کی شباہت سے مجھ کو
بہت خوار و شرمندہ ہونا پڑا تھا
قبا روح کی ملگجی ہو گئی تھی
کئی بار دامن کو دھونا پڑا تھا
وہ مجھ جیسی آنکھیں جبیں ہونٹ ابرو
کہ باقی نہ تھا کچھ بھی فرق من و تو
وہی چال آواز قد رنگ مدھم
وہی طرز گفتار ٹھہراؤ کم کم
خدا جانے کیا کیا مشاغل تھے اس کے
مرے پاس لوگ آئے آ آ کے لوٹے
کئی مجھ سے الجھے کئی مجھ سے جھگڑے
میں روتا رہا بے گناہی کا رونا
مرے جرم پر لوگ تھے قہقہہ زن
نہ کام آیا اپنی تباہی کا رونا
وہ ظلمت میں چھپ چھپ کے دن کاٹتا تھا
میں دن کے اجالے میں مارا گیا تھا
سنا رات وہ مر گیا کیا غضب ہے
اسے دفن کر آئے لوگوں کو دیکھو
میں کم بخت نظروں سے اوجھل ہی کب تھا
یہ کیا کر دیا ہائے لوگوں کو دیکھو

نظم
ہم زاد
شاذ تمکنت