شیخ زمن شادانی
آؤ
خواب دیکھتے ہیں
یاد نگر میں سائے پھرتے ہیں
تنہائی سسکاری بھرتی ہے
اپنی دنیا تاریکی میں ڈوب چلی
باہر چل کر مہتاب دیکھتے ہیں
شیخ زمن شادانی
آؤ
خواب دیکھتے ہیں
ہم سے پہلے کون کون سے لوگ ہوئے
جو ساحل پر کھڑے رہے
جن کی نظریں پانی سے ٹکرا ٹکرا کر
ٹوٹ ٹوٹ کر بکھر گئی ہیں
بکھر گئی ہیں اور پانی کا سبزہ ہیں
اس سبزے کے پیچھے کیا ہے
آج عقب میں
چھپے ہوئے گرداب دیکھتے ہیں
شیخ زمن شادانی
آؤ
خواب دیکھتے ہیں
نظم
ہم زاد
ساقی فاروقی