جب وہ اپنے گھروں سے نکلے
ان کے سروں پہ کفن بندھا تھا
دلوں میں جوش
آنکھوں میں بے خوفی
قبیلے کی بزرگ ترین ہستی نے پکارنا چاہا
اپنی تلواریں لیتے جاؤ
لیکن ان کے پتھر ہونے کا ڈر تھا
جب وہ اپنی بستیوں سے نکلے
ان کے سینوں میں دبی ہوئی آہیں تھیں
ہونٹوں پہ لرزشیں
ہاتھ دعاؤں کے لیے دراز
اس نے پکارنا چاہا
اپنے رزم نامے لیتے جاؤ
لیکن خاموش رہی
جب وہ سرحدوں پہ پہنچے
ان کی آنکھوں میں تصویریں تھیں
دلوں میں حسرتیں
قدموں میں لغزشیں
اس نے بہت چاہا کہ انہیں نہ پکارے
اپنی لوریاں لیتے جاؤ
سبھوں نے مڑ کر اس کی طرف دیکھا
اور کہا
ہم پتھر نہیں ہیں

نظم
ہم پتھر نہیں ہیں
شہناز نبی