ذہن کی زمینوں میں جڑیں پھیلاتا یہ سوال
کہ ہم کیوں لکھتے ہیں۔۔۔؟
بے کار میں اپنے وقت کی دولت لٹا کر
تخلیقی کرب کے نئے زائچوں میں
خود کو کیوں قید کرتے ہیں۔۔۔؟
میں سوچتا ہوں۔۔۔
کہ عدالت میں جب مجرم پیش ہوتا ہے
یہ جانتے ہوئے بھی کہ وہی مجرم ہے
اس کا بیان کیوں لکھا جاتا ہے۔۔۔؟
گواہوں کی شہادت کیوں تحریر کی جاتی ہے۔۔۔؟
مگر سٹینو سے کوئی نہیں پوچھتا
کہ تم یہ سب کیوں لکھتے ہو۔۔۔؟
شاید اس لئے کہ سب جانتے ہیں۔۔۔
ان بیانات کے اندر ہی
مجرم کی سزا جزا کے سبھی نقشے ترتیب پاتے ہیں
ہم اس لئے لکھتے ہیں۔۔۔
کہ ویرانیوں کی بارش میں
جذبے جب دلوں سے ہجرت کر جاتے ہیں
جب سرخ چہرے والے جسموں کے اندر کہیں
سفید بارش ہونے لگتی ہے
جب اونچی دیواروں کے بیچ
کسی کٹیا میں چپکے سے
روز ان گنت خواہشیں دفنائی جاتی ہیں
اور کتنے ہی لاغر بدنوں کے اندر
بھوک چھپ کر انہیں کھاتی رہتی ہے
جب چیخوں کے ہزاروں لشکر
آنگنوں پر چڑھائی کرتے ہیں
تو وقت اداسی کے صحیفے لئے
ان حادثوں کا چشم دید گواہ بن کر
اہل قلم کے پاس اپنی گواہی لکھوانے آتا ہے
ہم وقت کی سچی شہادت لکھ کر
معاشرے کی سزا جزا کے
راستوں کی نشاندہی کرتے ہیں
مگر حیران ہوں۔۔۔
پھر بھی پوچھا جاتا ہے
کہ ہم کیوں لکھتے ہیں۔۔۔
نظم
ہم کیوں لکھتے ہیں۔۔۔۔؟
منیر احمد فردوس