کون سے دیس کی بابت پوچھے
وقت کے دشت میں پھرتی
یہ خنک سرد ہوا
کن زمانوں کی یہ مدفون مہک
بد نما شہر کی گلیوں میں اڑی پھرتی ہے
اور یہ دور تلک پھیلی ہوئی
نیند اور خواب سے بوجھل بوجھل
اعتبار اور یقیں کی منزل
جس کی تائید میں ہر شے ہے
بقا ہے لیکن
اپنے منظر کے اندھیروں سے پرے
ہم خنک سرد ہوا سن بھی سکیں
ہم کہ کس دیس کی پہچان میں ہیں
ہم کہ کس لمس کی تائید میں ہیں
ہم کہ کس زعم کی توفیق میں ہیں
ہم کہ اک ضبط مسلسل ہیں
زمانوں کے ابد سے لرزاں
وہم کے گھر کے مکیں
اپنے ہی دیس میں پردیس لیے پھرتے ہیں
ہم کہ اک بھیس لیے پھرتے ہیں
نظم
ہم کہ اک بھیس لیے پھرتے ہیں
ابرار احمد