ہم خزاں کی غدود سے چل کر
خود دسمبر کی کوکھ تک آئے
ہم کو فٹ پاتھ پر حیات ملی
ہم پتنگوں پہ لیٹ کر روئے
سورجوں نے ہمارے ہونٹوں پر
اپنے ہونٹوں کا شہد ٹپکایا
اور ہماری شکم تسلی کو
جون کی چھاتیوں میں دودھ آیا
برف بستر بنی ہمارے لیے
اور دوزخ کے سرخ ریشم سے
ہم نے اپنے لیے لحاف بنے
زرد شریان کو دھوئیں سے بھرا
پھیپھڑوں پر سیاہ راکھ ملی
ناگا ساکی میں پھول کاشت کیے
نظم بیروت میں مکمل کی
لورکا کو کلائی پر باندھا
ہوچی منہ کو نیام میں رکھا
ساڑھے لینن بجے اسکول گئے
صبح عیسیٰ کو شام میں رکھا
ارمغان حجاز میں سوئے
ہولی وڈ کی اذان پر جاگے
ڈائری میں سدھار تھا لکھا
درد کو فلسفے کی لوری دی
زخم پر شاعری کا پھاہا رکھا
تن مشینوں کی تھاپ پر تھرکے
دل کتابوں کی تال پر ناچا
ہم نے فرعون کا قصیدہ لکھا
ہم نے کوفے میں مرثیے بیچے
ہم نے بوسوں کا کاروبار کیا
ہم نے آنکھوں کے آئنے بیچے
زندگی کی لگن نہیں ہم کو
زندگی کی ہمیں تھکن بھی نہیں
ہم کہ ہیرو نہیں ولن بھی نہیں
نظم
ہم کہ ہیرو نہیں
جاوید انور