EN हिंदी
ہم بے وطن خوابوں کے جولاہے ہیں | شیح شیری
hum be-watan KHwabon ke jolahe hain

نظم

ہم بے وطن خوابوں کے جولاہے ہیں

انجم سلیمی

;

بہت سی آواز جمع کر کے
ایک چیخ بنائی جا سکتی ہے

بہت تھوڑے لفظوں سے
ایک باغی نظم بنائی جا سکتی ہے

لیکن
زندہ قبرستان میں ایک نظم کا کتبہ کافی نہیں

قبریں دم سادھے پڑی ہیں
ہماری مائیں مردہ بچوں کو جنم دے رہی ہیں

لاشیں شناخت کرتے ہوئے ہجوم اپنا چہرہ
بھول جاتا ہے!

ہم زندگی سے صحبت کرنے نکلے تھے
اور زندگی نے ہمارے خصیوں سے کینچے بنا لیے

ہمارے لہو میں چیونٹیاں رینگتی ہیں
مگر ہم اپنی مرضی سے کھجلی تک نہیں کر سکتے

قطار میں کھڑے کھڑے ہم دوسروں سے مختلف کیسے ہو گئے!!!
زندگی میزان ہوتی تو ہم اس کے پلڑے اپنے وجودوں سے بھر دیتے

مگر کیا کریں کہ ہم خود اپنی نظروں میں بہت بے وزن تھے
ہتھیلیوں میں سوراخ ہوں تو آنکھیں کہاں سنبھالیں

ہم نے صرف چہرے نبھائے رشتے نہیں
پیاسی زمینوں میں آنسو کاشت کر کے بھی

بوند بھر ہریالی نہیں کھلی
ہم ساری عمر اپنے خوابوں کے جولاہے بنے رہے

اور اپنے بچوں کے لیے ایک سایہ دار پرچم نہ بن سکے
ہماری مٹی محض مٹی رہی

کبھی وطن نہ بن پائی!!!