EN हिंदी
حیرانی کا بوجھ | شیح شیری
hairani ka bojh

نظم

حیرانی کا بوجھ

شاہین غازی پوری

;

مٹی کی دیوار پہ اک کھونٹی سے لٹکی
میری یادوں کی زنبیل

جس میں چھپے تھے
رنگ برنگے کپڑوں کے بوسیدہ کترن

گول گول سی ننھی منی کر دھنیوں کے دانے
اک امرود کی ڈالی کاٹ کے بابا نے جو بنائی تھی

وہ ٹیڑھی میڑھی ایک غلیل
نیلے پیلے مٹیالے اور لال پروں کی ڈھیری

چوڑے منہ کا اک منہ زور سا کاٹھ کا اڑیل گھوڑا
اپنی اکڑ میں کھاتا ہوا بگھی والے کا کوڑا

اتنی مدت بعد جو کھولی میں نے وہ زنبیل
اک ننھا اس میں سے نکل کر جیسے سرپٹ بھاگا

دیکھتا تھا پیچھا ہی وہ اپنا اور نہ اپنا آگا
اور الجھتا جاتا جتنا کھلتا لپٹا دھاگا

جیسے بھیانک سپنے دیکھے کئی دنوں کا جاگا
اب کے پھر وہ نظر آیا تو سرگوشی میں پوچھوں گا

تم تو میرے یار تھے پھر کیوں
سالوں سال نہیں ملنے کو

اپنے شعور کی حیرانی کا بوجھ اٹھائے
جانے کتنی کٹھن راہوں سے گزرتے ہو

جگ والوں پر ہنستے ہو یا چھپ چھپ آہیں بھرتے ہو
بستی چھوڑ کے جنگل جنگل رین بسیرا کرتے ہو

یا پھر اک پاتال کی نچلی تہہ میں اتر جا مرتے ہو
شاید تم بھی گوتم ہو اور اپنے آپ سے ڈرتے ہو