ان ہاتھوں کی تعظیم کرو
ان ہاتھوں کی تکریم کرو
دنیا کے چلانے والے ہیں
ان ہاتھوں کو تسلیم کرو
تاریخ کے اور مشینوں کے پہیوں کی روانی ان سے ہے
تہذیب کی اور تمدن کی بھرپور جوانی ان سے ہے
دنیا کا فسانہ ان سے ہے، انساں کی کہانی ان سے ہے
ان ہاتھوں کی تعظیم کرو
صدیوں سے گزر کر آئے ہیں، یہ نیک اور بد کو جانتے ہیں
یہ دوست ہیں سارے عالم کے، پر دشمن کو پہچانتے ہیں
خود شکتی کا اوتار ہیں، یہ کب غیر کی شکتی مانتے ہیں
ان ہاتھوں کو تعظیم کرو
ایک زخم ہمارے ہاتھوں کے، یہ پھول جو ہیں گل دانوں میں
سوکھے ہوئے پیاسے چلو تھے، جو جام ہیں اب مے خانوں میں
ٹوٹی ہوئی سو انگڑائیوں کی محرابیں ہیں ایوانوں میں
ان ہاتھوں کی تعظیم کرو
راہوں کی سنہری روشنیاں، بجلی کے جو پھیلے دامن میں
فانوس حسیں ایوانوں کے، جو رنگ و نور کے خرمن میں
یہ ہاتھ ہمارے جلتے ہیں، یہ ہاتھ ہمارے روشن ہیں
ان ہاتھوں کی تعظیم کرو
خاموش ہیں یہ خاموشی سے، سو بربط و چنگ بناتے ہیں
تاروں میں راگ سلاتے ہیں، طبلوں میں بول چھپاتے ہیں
جب ساز میں جنبش ہوتی ہے، تب ہاتھ ہمارے گاتے ہیں
ان ہاتھوں کی تعظیم کرو
اعجاز ہے یہ ان ہاتھوں کا، ریشم کو چھوئیں تو آنچل ہے
پتھر کو چھوئیں تو بت کر دیں، کالکھ کو چھوئیں تو کاجل ہے
مٹی کو چھوئیں تو سونا ہے، چاندی کو چھوئیں تو پایل ہے
ان ہاتھوں کی تعظیم کرو
بہتی ہوئی بجلی کی لہریں، سمٹے ہوئے گنگا کے دھارے
دھرتی کے مقدر کے مالک، محنت کے افق کے سیارے
یہ چارہ گران درد جہاں، صدیوں سے مگر خود بے چارے
ان ہاتھوں کی تعظیم کرو
تخلیق یہ سوز محنت کی، اور فطرت کے شہکار بھی ہیں
میدان عمل میں لیکن خود، یہ خالق بھی معمار بھی ہیں
پھولوں سے بھری یہ شاخ بھی ہیں اور چلتی ہوئی تلوار بھی ہیں
ان ہاتھوں کی تعظیم کرو
یہ ہاتھ نہ ہوں تو مہمل سب، تحریریں اور تقریریں ہیں
یہ ہاتھ نہ ہوں تو بے معنی انسانوں کی تقریریں ہیں
سب حکمت و دانش علم و ہنر ان ہاتھوں کی تفسیریں ہیں
ان ہاتھوں کی تعظیم کرو
یہ کتنے سبک اور نازک ہیں، یہ کتنے سڈول اور اچھے ہیں
چالاکی میں استاد ہیں یہ اور بھولے پن میں بچے ہیں
اس جھوٹ کی گندی دنیا میں بس ہاتھ ہمارے سچے ہیں
ان ہاتھوں کی تعظیم کرو
یہ سرحد سرحد جڑتے ہیں اور ملکوں ملکوں جاتے ہیں
بانہوں میں بانہیں ڈالتے ہیں اور دل سے دل کو ملاتے ہیں
پھر ظلم و ستم کے پیروں کی زنجیر گراں بن جاتے ہیں
ان ہاتھوں کی تعظیم کرو
تعمیر تو ان کی فطرت ہے، اک اور نئی تعمیر سہی
اک اور نئی تدبیر سہی، اک اور نئی تقدیر سہی
اک شوخ و حسیں خواب اور سہی اک شوخ و حسیں تعبیر سہی
ان ہاتھوں کی تعظیم کرو
ان ہاتھوں کی تکریم کرو
دنیا کو چلانے والے ہیں
ان ہاتھوں کو تسلیم کرا
نظم
ہاتھوں کا ترانہ
علی سردار جعفری