EN हिंदी
حادثہ | شیح شیری
hadsa

نظم

حادثہ

وزیر آغا

;

بے آواز تھے آنسو اس کے
چھوٹے چھوٹے پیر تھے اس کے

تن جیسے روئی کا گالا
رنگ تھا کالا

ندی کنارے تک پیروں کے
سارے نشان سلامت تھے

پار ندی کے کچھ بھی نہیں تھا
پار ندی کے کچھ بھی نہیں ہے

ساری راہیں ندیا کے اندر جاتی ہیں
اور پھر وہیں کی ہو جاتی ہیں

چھوٹے چھوٹے پیر برہنہ ریت کے اوپر پھول کھلا کر
ندی کنارے تک جاتے ہیں

اور پھر پار کہاں جاتے ہیں
ہر بچے کو

اڑتی تتلی سرگوشی میں بتلاتی ہے
ماں تیری ندیا کے اندر

دودھ کا اک مشکیزہ لے کر
تیرا رستہ دیکھ رہی ہے

کون بتائے ان بچوں کو
ماں ندیا کے اندر کب ہے

ماں تو خود اک تیز ندی ہے
ماں اک دودھ بھری ندی ہے