کل کا گزرا ہوا دن پھر مرے گھر آیا ہے
ناگہاں سینے کا ہر داغ ابھر آیا ہے
گھومتی پھرتی ہے آوارہ چمیلی کی مہک
چاند آنگن میں دبے پاؤں اتر آیا ہے
کس کے ہونٹوں کے تبسم سے بکھرتے ہیں گلاب
کون ہم راہ لیے باد سحر آیا ہے
جھٹ پٹا چھا گیا بوسیدہ گھروں کے اوپر
دور سے چل کے کوئی خاک بسر آیا ہے
کس کے اعزاز میں یہ سائے نکل آئے ہیں
آج کیا بزم میں وہ خستہ جگر آیا ہے
ایک مہمان ہے جو آ کے چلا جائے گا
دل بیمار اسے دیکھ کے بھر آیا ہے
نظم
گزرا ہوا دن
منیب الرحمن