EN हिंदी
غنڈہ | شیح شیری
ghunda

نظم

غنڈہ

علی عمران

;

موت بندوق لیے پھرتی ہے
گلی کوچوں میں دندناتی ہے

کان میں سیٹیاں بجاتی ہے
آسماں ناک پر اٹھاتی ہوئی

ٹھوکروں سے زمیں اڑاتی ہوئی
تختیاں غور سے پڑھتی ہے سب مکانوں کی

گالیاں بکتی گزرتی ہے ہر محلے سے
ریز گاری بھی چراتی ہے روز گلے سے

موت بندوق لیے پھرتی ہے
کوئی گھر سے نکل نہیں پاتا

اس کے ڈر سے نکل نہیں پاتا
بڑی دہشت ہے اس کی گھر گھر میں

موت جیسے کہ گلی کا دادا
جو کسی دوسرے محلے سے

بھتہ لینے کو جو آیا تو پلٹ کر نہ گیا
روز گلیوں میں آ نکلتی ہے

سب دکانوں میں پرچی گرتی ہے
موت بندوق لیے پھرتی ہے