گناہ کے تند و تیز شعلوں سے روح میری بھڑک رہی تھی
ہوس کی سنسان وادیوں میں مری جوانی بھٹک رہی تھی
مری جوانی کے دن گزرتے تھے وحشت آلود عشرتوں میں
مری جوانی کے مے کدوں میں گناہ کی مے چھلک رہی تھی
مرے حریم گناہ میں عشق دیوتا کا گزر نہیں تھا
مرے فریب وفا کے صحرا میں حور عصمت بھٹک رہی تھی
مجھے خس ناتواں کے مانند ذوق عصیاں بہا رہا تھا
گناہ کی موج فتنہ ساماں اٹھا اٹھا کر پٹک رہی تھی
شباب کے اولیں دنوں میں تباہ و افسردہ ہو چکے تھے
مرے گلستاں کے پھول جن سے فضائے طفلی مہک رہی تھی
غرض جوانی میں اہرمن کے طرب کا سامان بن گیا میں
گنہ کی آلائشوں میں لتھڑا ہوا اک انسان بن گیا میں
محبت
اور اب کہ تیری محبت سرمدی کا بادہ گسار ہوں میں
ہوس پرستی کی لذت بے ثبات سے شرمسار ہوں میں
مری بہیمانہ خواہشوں نے فرار کی راہ لی ہے دل سے
اور ان کے بدلے اک آرزوئے سلیم سے ہمکنار ہوں میں
دلیل راہ وفا بنی ہیں ضیائے الفت کی پاک کرنیں
پھر اپنے فردوس گم شدہ کی تلاش میں رہ سپار ہوں میں
ہوا ہوں بے دار کانپ کر اک مہیب خوابوں کے سلسلے سے
اور اب نمود سحر کی خاطر ستم کش انتظار ہوں میں
بہار تقدیس جاوداں کی مجھے پھر اک بار آرزو ہے
پھر ایک پاکیزہ زندگی کے لیے بہت بے قرار ہوں میں
مجھے محبت نے معصیت کے جہنموں سے بچا لیا ہے
مجھے جوانی کی تیرہ و تار پستیوں سے اٹھا لیا ہے
نظم
گناہ اور محبت
ن م راشد