کھردرے جسم کے نشیب و فراز
جاننے کی ہوس میں جس کی زباں
اور سب ذائقے بھلا بیٹھی
وہ نہتا اکیلا رات کے وقت
ایک دل دوز چیخ کے ہم راہ
جنگلوں کی طرف گیا تھا کبھی
اور پھر لوٹ کر نہیں آیا
اب وہ شاید کبھی نہ آئے گا
اس کے سائے کی دونوں آنکھیں مگر
موت سے اس کی بے خبر ہیں ابھی
اس کی آمد کی منتظر ہیں ابھی
نظم
گم شدہ
شہریار