EN हिंदी
گلابی چونچ | شیح شیری
gulabi chonch

نظم

گلابی چونچ

عنبر بہرائچی

;

گلابی چونچ میں کیڑے لیے اڑتی ہے گوریا
جدھر اک آشیاں میں اس کے بچوں نے ابھی آنکھیں نہیں کھولیں

مگر ہیں بھوک سے بے کل
مچھیرے صبح کی دھندھلی رداؤں میں

پرانے چھپروں کی کوکھ سے شانوں پہ رکھ کر جال نکلے ہیں
وہیں پر کھانستے ہیں چند محنت کش الاؤ کے کنارے بیڑیاں پی کر

فلک پیما عمارت کے لیے مزدور پتھر توڑتے ہیں منہمک ہو کر
سحر کی سرمئی دھندھلی رداؤں میں

میں گہری سوچ میں گم ہوں
صف دانش وراں کیا ان سے برتر ہے؟