EN हिंदी
گلاب بکف | شیح شیری
gulab-ba-kaf

نظم

گلاب بکف

شاہین غازی پوری

;

بہار کی یہ دل آویز شام
جس کی طرف

قدم اٹھائے ہیں میں نے
کہ اس سے ہاتھ ملاؤں

اور اک شگفتہ شناسائی کی بنا رکھوں
پھر اپنی خانہ بدوشی کی مشترک لے پر

اسے گلاب بکف خیمۂ جنوں تک لاؤں
کچھ اس کی خیر خبر پوچھوں

اور کچھ اپنی کہوں
کہوں کہ کتنے ہی پت جھڑ کے موسم آئے گئے

مگر ان آنکھوں کی سحرالبیانیاں نہ گئیں
کہوں کہ گرچہ عناصر نے تہمتیں باندھیں

جنوں زدوں کی مگر سخت جانیاں نہ گئیں
کہوں کہ ایک ہیں اندیشے سب مرے تیرے

کہوں الگ نہیں جینے کے ڈھب مرے تیرے
کہوں کہ ایک سے ہیں روز و شب مرے تیرے

کہوں کہ ملتے ہیں نام و نسب مرے تیرے
کہوں ازل سے جنوں کاروبار اپنا ہے

ہزار جبر ہو کچھ اختیار اپنا ہے