اے گل رنگیں قبا اے غازۂ روئے بہار
تو ہے خود اپنے جمال حسن کا آئینہ دار
ہائے وہ تیرے تبسم کی ادا وقت سحر
صبح کے تارے نے اپنی جان تک کر دی نثار
شرم کے مارے گلابی ہے ادھر روئے شفق
شبنم آگیں ہے ادھر پیشانیٔ صبح بہار
یوں نگار مہر تیرے سامنے آیا تو کیا
لڑکھڑاتا سر جھکائے زرد رو سیماب وار
خامشی تیری ادا ہے، سادگی فطرت میں ہے
پھر بھی جو تیرا حریف حسن ہے، حیرت میں ہے
اے گل نازک ادا، اے خندۂ صبح چمن
چومتی ہے تیرے ہونٹوں کو نسیم مشک تن
گھیر لیں جیسے عروس نو کو ہم سن لڑکیاں
یوں تجھے گھیرے ہوئے ہیں نو نہالان چمن
وادیوں میں تو، بیابانوں میں تو، بستی میں تو
رونق ہر محفل و زینت دہ ہر انجمن
یہ ادائے سادگی، محبوبیت، معصومیت
تو رہ ہستی میں کس انداز سے ہے گامزن
جوش سرمستی میں وہ موج صبا کی چھیڑ چھاڑ
وہ ترے عارض پہ اک ہلکے تبسم کی شکن
تو زمین رنگ و بو، تو آسمان رنگ و بو
مختصر یہ ہے کہ تو ہے اک جہان رنگ و بو
نظم
گل
معین احسن جذبی