اک تذبذب کی سرائے
ساعتوں کے میل سے
بوجھل مگر روشن چھتیں دیوار و در
اور راہدری میں ابھرتی
اجنبی قدموں کی
ہلکی تیز چاپ
اور خاموشی کا لمس جیسے سائبہ
پھر صحن میں آ کر اترتے
قافلوں کی فاصلوں سے چور آوازیں
سفر میں یوں اچانک آنے والے
اس پڑاؤ کی
لپٹتی میزباں ٹھنڈک سے
سحر آگیں طراوت پا رہی ہیں
سیڑھیوں سے دور
دالانوں کے گوشے میں کھڑا اک عکس
اپنے ہم نشینوں
ہم رکابوں کا امیر
ان کا محبی
پھر بھی
اس تشکیک کی
بلور ساعت میں
ہر اک سے بد گماں
اس سوچ میں غلطاں
کہ جیسے
اس سفر ہو رائیگاں
نظم
گرہستی
سجاد بابر