EN हिंदी
گریہ | شیح شیری
girya

نظم

گریہ

انجم سلیمی

;

تمہارے دکھ نے
میرے اندر ایک شہر ماتم دریافت کیا

جہاں ہر روز میرے جنم پر جشن گریہ منایا جاتا ہے
تم اپنی ہنسی کا تحفہ

کالی اینٹوں سے بنائے گئے اس طاق
میں رکھ دو

جہاں چراغ کی خاموشی
اور رات کی سسکیاں سانپوں کی طرح

سرسراتی ہیں
ہاں!! سانپوں سے یاد آیا

آج سانپوں سے وصال کی رات ہے
آنسو خشک ہیں غسل کیسے کروں؟

میرے زخموں سے گرنے والے کیڑے
میرے سائے سے بڑے ہو رہے ہیں

مجھے اپنی نگہبانی کا مت کہو
میں تو خود اپنی حفاظت میں چوری ہو جاتا ہوں

شریانوں کے صد راہے پر لہو راستہ
بھول گیا ہے

شہر مجھے میری آنکھ سے نہیں دیکھتا
آئینہ مجھ پر نگاہ پڑتے ہی بے عکس ہو جاتا ہے

دیکھو۔۔۔۔
رات کے کشکول میں

ایک نگاہ کی بھیک بھی نہیں
پورے چاند کو تنہائی نے توڑ ڈالا

اب اس کی کرچیاں میری ایش ٹرے
میں پڑی ہیں

کہو کہ کیا کہوں؟
آوازوں کے نیلام گھر میں مجھے تو

چپ لگ جاتی ہے!