میں نے گلاب کے پودے سے پوچھا
آج کل تم پر پھول کم اور کانٹے زیادہ آ رہے ہیں
کہنے لگا میں تمہارا بے دام غلام ہوں
ان دنوں تم دشمنی کے کانٹے بونے میں مصروف ہو
تمہیں کانٹوں کی ضرورت ہے
جس روز تم دوستی کے سفر پر نکلو گے
دیکھنا میں کیسے پھولوں کے انبار لگا دوں گا
میں نے فاختہ سے کہا
دنیا میں ہر طرف بد امنی پھیلی ہے
وہ تمہاری شاخ زیتون وہ شاخ امن کہاں گئی
بولی میں نے تو لا کر تمہارے ہاتھ میں دے دی تھی
تمہی کہیں رکھ کر بھول گئے ہو
دیکھو شاید تمہاری بندوق کی نالی میں نہ پڑی ہو
میں نے تاروں بھرے آسمان کی طرف حسرت سے دیکھا
انسان کے دن کب پھریں گے
یہ قتل و غارت یہ خون خرابہ کب ختم ہوگا
یہ زیر دستوں کا صبر یہ زبردستوں کا جبر
یہ لوٹ اور جھوٹ آخر ہمارے نصیب میں کیوں لکھ دیے گئے ہیں
ایک ستارہ ٹوٹا
اور میرے دل کے تختۂ سیاہ پر رقم کر گیا
''جھانک لو اپنے گریباں میں''
نظم
گریبان
محمد حنیف رامے