EN हिंदी
گل لاجورد | شیح شیری
gil-e-laj-ward

نظم

گل لاجورد

خلیل تنویر

;

میں سوچتا رہا
لیکن نہ کوئی بھید کھلا

ترے وجود کے سائے میں
آگ سی کیوں ہے

یہ کیسا رنگ ہے
مٹی میں جذب ہو کر بھی

سیاہ رات کے آنچل میں جگمگاتا ہے
کہ جیسے چاند

سمندر میں ڈوب جاتا ہے