چلو پھر سے مسکرائیں
چلو پھر سے دل جلائیں
جو گزر گئیں ہیں راتیں
انہیں پھر جگا کے لائیں
جو بسر گئیں ہیں باتیں
انہیں یاد میں بلائیں
چلو پھر سے دل لگائیں
چلو پھر سے مسکرائیں
کسی شہ نشیں پہ جھلکی
وہ دھنک کسی قبا کی
کسی رگ میں کسمسائی
وہ کسک کسی ادا کی
کوئی حرف بے مروت
کسی کنج لب سے پھوٹا
وہ چھنک کے شیشۂ دل
تہ بام پھر سے ٹوٹا
یہ ملن کی نا ملن کی
یہ لگن کی اور جلن کی
جو سہی ہیں وارداتیں
جو گزر گئیں ہیں راتیں
جو بسر گئی ہیں باتیں
کوئی ان کی دھن بنائیں
کوئی ان کا گیت گائیں
چلو پھر سے مسکرائیں
چلو پھر سے دل جلائیں
نظم
گیت
فیض احمد فیض