EN हिंदी
گھور اندھیرا | شیح شیری
ghor andhera

نظم

گھور اندھیرا

اختر راہی

;

خون چشیدہ صدیوں کا وہ گھور اندھیرا بکھر گیا
جنگ و جدل کا جذبہ جاگا امن کا پرچم اتر گیا

نصف صدی ڈھلنے کو ہے وہ رات ڈھلے
پھر بھی لہو کا بپھرا دریا جاری ہے

معصوموں کے نالوں سے
مظلوموں کی آہوں سے

انسانوں کی چیخوں سے
تھراتے ہیں ویرانے

سچ کہتا ہے رات ڈھلی
رات ڈھلی یا خون میں ڈوبی ہوا چلی

تیری بانی تو جانے
ہم تو ٹھہرے دیوانے

کوئی مانے یا نہ مانے سو باتوں کی بات ہے یہ
بیتی شب تھی پل دو پل کی ایک صدی کی رات ہے یہ