EN हिंदी
گھاس تو مجھ جیسی ہے | شیح شیری
ghas to mujh jaisi hai

نظم

گھاس تو مجھ جیسی ہے

کشور ناہید

;

گھاس بھی مجھ جیسی ہے
پاؤں تلے بچھ کر ہی زندگی کی مراد پاتی ہے

مگر یہ بھیگ کر کس بات گواہی بنتی ہے
شرمساری کی آنچ کی

کہ جذبے کی حدت کی
گھاس بھی مجھ جیسی ہے

ذرا سر اٹھانے کے قابل ہو
تو کاٹنے والی مشین

اسے محمل بنانے کا سودا لیے
ہموار کرتی رہتی ہے

عورت کو بھی ہموار کرنے کے لیے
تم کیسے کیسے جتن کرتے ہو

نہ زمیں کی نمو کی خواہش مرتی ہے
نہ عورت کی

میری مانو تو وہی پگڈنڈی بنانے کا خیال درست تھا
جو حوصلوں کی شکستوں کی آنچ نہ سہہ سکیں

وہ پیوند زمیں ہو کر
یوں ہی زور آوروں کے لیے راستہ بناتے ہیں

مگر وہ پر کاہ ہیں
گھاس نہیں

گھاس تو مجھ جیسی ہے!