EN हिंदी
غریبوں کی صدا | شیح شیری
gharibon ki sada

نظم

غریبوں کی صدا

محمد دین تاثیر

;

غریبوں کی فاقہ کشوں کی صدا ہے
مرے جا رہے ہیں

امیروں کے عیشوں کا انبار سر پر
لدے ہیں زمانے کے افکار سر پر

زمیندار کاندھے پہ سرکار سر پر
مرے جا رہے ہیں

شرابوں کے رسیا امیروں کا کیا ہے
ہنسے جا رہے ہیں

غریبوں کی محنت کی دولت چرا کر
غریبوں کی راحت کی دنیا مٹا کر

محل اپنے غارت گری سے سجا کر
ہنسے جا رہے ہیں

غریبوں نے سمبندہ مل کر کیا ہے
خوشی بڑھ گئی ہے کہ غم بڑھ رہے ہیں

نگاہوں سے آگے قدم بڑھ رہے ہیں
سنبھلنا امیرو کہ ہم بڑھ رہے ہیں

بڑھے جا رہے ہیں