EN हिंदी
غریبوں کا گیت | شیح شیری
gharibon ka git

نظم

غریبوں کا گیت

مسعود اختر جمال

;

غریبی کو مٹا دیں گے غریبی کو مٹا دیں گے
ہم اپنے بازوؤں کا زور دنیا کو دکھائیں گے

ہوس کے آسماں بر دوش محلوں کو گرا دیں گے
در انسانیت پر ظالموں کے سر جھکا دیں گے

غریبی کو مٹا دیں گے غریبی کو مٹا دیں گے
کسی کے عیش سے بے واسطہ رنجش نہیں ہم کو

کسی کے سیم و زر سے بے سبب کاوش نہیں ہم کو
کسی پر ظلم ڈھانے کی کبھی خواہش نہیں ہم کو

مگر ہم ظلم کے بڑھتے ہوئے شعلے بجھا دیں گے
غریبی کو مٹا دیں گے غریبی کو مٹا دیں گے