خدا کی قدرت وہ ناک اپنی بڑے گھرانے میں گھس گئے ہیں
جو اقربا سے اکڑ رہے تھے وہ سمدھیانے میں گھس گئے ہیں
ہمارے گھر تین روز رہ کر چلے گئے وہ بلیک بیوٹی
مگر کم از کم پچاس صابن غریب خانے میں گھس گئے ہیں
ملی ہے جب بھی انہیں وزارت اسمبلی ہو گئی معطل
ہماری ملت کے رہنما تو حلف اٹھانے میں گھس گئے ہیں
جو تیرے والد نے میری شادی پہ ایک جوڑی دیے تھے جوتے
وہ تیرے میکے کی شاہراہوں پہ آنے جانے میں گھس گئے ہیں
سحر کو اٹھتی نہیں ہیں بیگم بغیر طبلہ بغیر سرگم
ہمارے گھر کے تمام برتن انہیں جگانے میں گھس گئے ہیں
مشاعرے میں سنائی ہم نے جو ڈیڑھ سو شعر کی مسدس
بہت سے شاعر تو رکھے رکھے ہی شامیانے میں گھس گئے ہیں
نظم
غریب خانے میں
خالد عرفان