ایک فقیر
ایک انساں پیکر اخلاص روح راستی
اک فقیر بے نوا ایثار جس کی زندگی
جس کے ہر قول و عمل میں امن کا پیغام تھا
جس کا ہر اقدام گویا عافیت انجام تھا
جس کی دنیا بندگی بھگتی سرور جاوداں
جس کی دنیا کیف و سرمستی کی حاصل بے گماں
آشتی تھی جس کی فطرت جس کا مذہب پیار تھا
خدمت انسانیت کا جو علمبردار تھا
عزم نے جس کے ہر اک مشکل کو آساں کر دیا
جذبۂ احساس خودداری بشر میں بھر دیا
ناز اٹھائے ہند کے وہ ہند کا غم خوار تھا
کاروان حریت کا رہبر و سالار تھا
یہ بھی ہے معجز بیانی اس کی ہر تحریر کی
نقش فرسودہ سے پیدا اک نئی تصویر کی
خاک سے شعلے اٹھے اور آسماں پر چھا گئے
ماہ و انجم بن گئے کون و مکاں پر چھا گئے
تیرگی بھاگی جہالت کی فضا چھٹنے لگی
ہولے ہولے تیرہ و تاریک شب کٹنے لگی
ہر طرف کیف و مسرت ہر طرف نور و سرور
غنچہ غنچہ پر تبسم چشم نرگس پر غرور
یہ فسوں کاری ہوئی جس کے سبب وہ کون تھا
یہ جنوں کاری ہوئی جس کے سبب وہ کون تھا
نام تھا گاندھی مگر اس کے ہزاروں نام ہیں
ایک مے خانہ ہے جس میں ہر طرح کے جام ہیں
نظم
گاندھی
ساحر ہوشیار پوری