EN हिंदी
گامزن | شیح شیری
gamzan

نظم

گامزن

شہزاد احمد

;

کبھی ریتیلے خشک میدان میں
کوئی بادل کا آوارہ ٹکڑا

کسی گھر سے بھاگے ہوئے پیارے بچے کی مانند
آوارگی کرتا کرتا

زمانوں سے سوکھی ہوئی ریت کو پیار سے دیکھتا ہے
وہ اچھی طرح جانتا ہے

کہ اس ریت کے خشک سینے میں دل ہے
جو اپنی تباہی پہ روتا نہیں ہے

جو کہتا نہیں ہے
کہ ''آؤ مجھے اس گڑھے سے نکالو

مرے منہ کو دھو کر
مری مانگ میں سبز پتوں کا چندن بھرو''

وہ بادل کا آوارہ ٹکڑا
جو بچوں کی مانند معصوم ہے

اپنی کاجل لگی بھیگی آنکھوں سے اس کی طرف دیکھتا ہے
وہ روتا ہے

اور اس کے آنسو
سلگتی ہوئی ریت کے خشک سینے میں ہلچل مچاتے ہیں

خوشبو لٹاتے ہیں
اور ان کی خوشبو

مسافر اکیلے مسافر سے کہتی ہے
چلتے رہو

ابھی زندگی میں نمی ہے
ابھی سرد جھونکوں کا سیلاب سویا نہیں ہے