غالبؔ تیرا کلام نوائے سروش ہے
الہام غیب و نغمۂ ساز خموش ہے
ایسا بھرا ہوا ہے غزل میں سنگار رس
اک جنت سماع ہے فردوس گوش ہے
آساں نہیں جمال معانی کا دیکھنا
ہر شاہد خیال ترا پردہ پوش ہے
جو بات ہے وہ شوخئ گلدستۂ چمن
جو لفظ ہے بہار کف گل فروش ہے
موج رواں ہیں مصرعہ بے ساختہ ترے
بحر سخن میں بحر محبت کا جوش ہے
ان موتیوں کی قدر ہے شاہوں کے تاج میں
پرکھے نظر سے ان کو جو گوہر فروش ہے
کیف سخن سے مست ہوں تیری غزل سنیں
اس بزم میں جنہیں ہوس ناؤ نوش ہے
تو نے چمن چمن میں شگوفے کھلا دیے
فطرت ترے کلام کی گلشن بہ دوش ہے
افسوں طرازیاں تری منہ کی لتی رہیں
گل کی زبان بند ہے غنچہ خموش ہے
بالا تیرا مقام دنیائے شعر میں
عرفیؔ بھی ایک بندۂ حلقہ بگوش ہے
دنیا ترے خیال میں ہے چشمۂ سراب
رنگینئ نشاط و طرب خواب دوش ہے
تیری نظر میں شاہد و مشہود ایک ہیں
دنیائے بیخودی تجھے دنیائے ہوش ہے
دانہ تری نگاہ میں تھا خرمن مراد
تجھ کو خبر تھی قطرے میں دریا کا جوش ہے
دیر و حرم پہ بھی نہیں یہ راز منکشف
حرف ازل ہے کون جو معنیٰ فروش ہے
افسردہ داغ سے ہے ترے محفل ادب
نے وہ سرور و سوز نہ جوش و خروش ہے
کتنی ترے مزار پہ چھائی ہے بیکسی
اک شمع اشک ریز تھی وہ بھی خموش ہے
چھلکی جو تھی کبھی ترے رنگیں ایاغ سے
کیفیؔ اسی شراب کا اک جرعہ نوش ہے
نظم
غالبؔ
چندر بھان کیفی دہلوی