EN हिंदी
فرصت کی تمنا میں | شیح شیری
fursat ki tamanna mein

نظم

فرصت کی تمنا میں

حفیظ جالندھری

;

یوں وقت گزرتا ہے
فرصت کی تمنا میں

جس طرح کوئی پتا
بہتا ہوا دریا میں

ساحل کے قریب آ کر
چاہے کہ ٹھہر جاؤں

اور سیر ذرا کر لوں
اس عکس مشجر کی

جو دامن دریا پر
زیبائش دریا ہے

یا باد کا وہ جھونکا
جو وقف روانی ہے

اک باغ کے گوشے میں
چاہے کہ یہاں دم لوں

دامن کو ذرا بھر لوں
اس پھول کی خوشبو سے

جس کو ابھی کھلنا ہے
فرصت کی تمنا میں

یوں وقت گزرتا ہے
افکار معیشت کے

فرصت ہی نہیں دیتے
میں چاہتا ہوں دل سے

کچھ کسب ہنر کر لوں
گلہائے مضامیں سے

دامان سخن بھر لوں
ہے بخت مگر واژوں

فرصت ہی نہیں ملتی
فرصت کو کہاں ڈھونڈوں

فرصت ہی کا رونا ہے
پھر جی میں یہ آتی ہے

کچھ عیش ہی حاصل ہو
دولت ہی ملے مجھ کو

وہ کام کوئی سوچوں
پھر سوچتا یہ بھی ہوں

یہ سوچنے کا دھندا
فرصت ہی میں ہونا ہے

فرصت ہی نہیں دیتے
افکار معیشت کے