اولیں شہر کی تسخیر میں پہلو تھے بہت
رنج کے خوف کے حیرت کے شکیبائی کے
پھر یہ دیکھا کہ تن و جاں کے اثاثے کے عوض
مٹی ہم جس پہ قدم رکھتے ہیں
جس کی ٹھوڑی پہ لہو رنگ علم رکھتے ہیں
اس کی ممتا کی حرارت سے الگ چیز نہیں
جس میں ہم اپنا نسب اپنا جنم رکھتے ہیں
اپنے ہونے کا بھرم رکھتے ہیں
نظم
فتح کا غم
اعتبار ساجد