خدائے لم یزل کی بارگاہ میں
سر بہ سجود!
انا کی چوکھٹوں میں جڑے چہروں والے لوگ
پیشانیوں پر گٹے ڈالنے میں مصروف ہیں
آٹے میں سنی مٹھیاں
ان کی بخشش کی ضمانت ہیں
یہ کون سی جنت نعیم ہے
جس کا راستہ
چیونٹیوں کی بانبی سے ہو کر گزرتا ہے
دربانوں اور کتوں کو کھلی آزادی ہے
'جاگتے رہو' کی صدائیں
عنایتوں کا خراج وصول کرتے نہیں تھکتی ہیں
سرکس کا پنڈال کھچا کھچ بھرا ہے
میمنوں کے باڑے میں
سہما دبکا۔۔۔گھاس کھاتا شیر
کیسا بے ضرر دکھائی دیتا ہے
بونوں کی اچھل کود
فلک شگاف قہقہے۔۔۔مسلسل قہقہے
تالیوں کی گونج!
محل سرا کے بند پھاٹک کو چھو کر لوٹ آتی ہے
بستی کے جہاں دیدہ بوڑھے
فریادی ماتم کرتے
پنڈال سے روانہ ہو جاتے ہیں
نظم
فریادی ماتم
آشفتہ چنگیزی