ہر ایک شام مجھے یوں خیال آتا ہے
کہ جیسے ٹاٹ کا میلا پھٹا ہوا پردہ
تمہارے ہاتھ کی جنبش سے کانپ جائے گا
کہ جیسے تم ابھی دفتر سے لوٹ آؤ گے
مجھے تو یاد نہیں کچھ تمہارے سر کی قسم
مگر پڑوس کی لڑکی بتا رہی تھی کہ میں
اب اپنی مانگ میں افشاں نہیں سجاتی ہوں
توے پہ روٹیاں اکثر جلائی ہیں میں نے
شکر کے بدلے نمک چائے میں ملاتی ہوں
وہ کہہ رہی تھی کہ ننگی کلائیاں میری
تمام عمر یوں ہی چوڑیوں کو ترسیں گی
غموں کی دھوپ میں جلتے ہوئے اس آنگن پر
مسرتوں کی گھٹائیں کبھی نہ برسیں گی
وہ کہہ رہی تھی کہ تم اب کبھی نہ آؤ گے
گلی کے موڑ پہ لیکن ہر ایک شام مجھے
تمہارے قدموں کی آہٹ سنائی دیتی ہے
ہر ایک شام مجھے یوں خیال آتا ہے
کہ جیسے تم ابھی دفتر سے لوٹ آؤ گے
نظم
فریب
کفیل آزر امروہوی