EN हिंदी
فریب نظر | شیح شیری
fareb-e-nazar

نظم

فریب نظر

شمیم کرہانی

;

بھیگی بھیگی سی ہوائیں، مہکا مہکا سا چمن
چاند کی پگھلی ہوئی چاندی سے دھرتی سیم تن

شاخ کے نیچے پری پیکر سا کوئی خندہ زن
چمپئی رخسار، لب رنگیں، گلابی پیرہن

میں نے یہ سمجھا کہ تم ہو، تم نہ تھے وہ پھول تھا
دھیرے دھیرے چہرۂ سیمیں سے سرکاتا نقاب

رات مے خانے کے اک گوشے سے ابھرا ماہتاب
پھول بکھراتا تبسم رنگ برساتا شباب

نیند کی ترسی ہوئی آنکھوں پہ ٹپکاتا شراب
میں نے یہ سمجھا کہ تم ہو تم نہ تھے، وہ جام تھا

شب کے سینے پر اندھیروں کی چٹانیں تھیں دھری
ناگہاں بادل سے نکلی، مسکراتی اک پری

سیم گوں ماتھا، روپہلا جسم مانگ افشاں بھری
دیکھ کر سینے میں ٹھنڈک آئے آنکھوں میں تری

میں نے یہ سمجھا کہ تم ہو تم نہ تھے وہ چاند تھا
دور تاروں سے جہاں ملتی ہے ،شام رہ گزر

اب بھی دو پرچھائیاں پڑتی ہیں جس کی خاک پر
جس جگہ مل کر گلے چھوٹے تھے ہم با چشم تر

بارہا کوئی مجھے ہنستا ہوا آیا نظر؟
میں نے یہ سمجھا کہ تم ہو، تم کہاں تھے وہم تھا

حسن سیمیں سے فضاؤں میں اجالا سا کیے
نشۂ عہد جوانی سے پریشاں، بے پیے

سرخ آنکھوں میں جلائے شام مستی کے دیئے
کوئی میرے پاس آیا، ہاتھ میں ساغر لیے

میں نے یہ سمجھا کہ تم ہو، تم کہاں تھے، خواب تھا