EN हिंदी
فقیری میں | شیح شیری
faqiri mein

نظم

فقیری میں

ساجدہ زیدی

;

فقیری میں بھی خوش وقتی کے
کچھ سامان فراہم تھے

خیالوں کے بگولے
مضطرب جذبوں کے ہنگامے،

تلاطم بحر ہستی میں
تموج روح کے بن میں،

عجب افتاں و خزاں مرحلے پہنائی شب کے،
تڑپ غم ہائے ہجراں کی

لرزتی آرزو دیدار جاناں کی
عدم آباد کے صحرا میں ایک ذرہ

کہ مثل قطرۂ سیماب لرزیدہ
صدف میں ذہن کے جوں

گوہر کمیاب پوشیدہ
دل صد پارہ

جوئے غم
لرزتی کشتئ احساس

جہاں بینی کا دل میں عزم دزدیدہ
فقیری میں یہی اسباب ہستی تھا یہی درد تہہ جام تمنا تھا

یہی ساماں بچا لیتے تو اچھا تھا
فقیری میں مگر یہ کون سی افتاد آئی ہے

کہ ساماں لٹ گیا راہوں میں کاسہ دل کا خالی ہے