EN हिंदी
فن کار | شیح شیری
fankar

نظم

فن کار

صابر دت

;

اس بھرے شہر میں ہر چیز کی قیمت ٹھہری
درد بک جاتے ہیں جذبات بکا کرتے ہیں

جگمگاتے ہوئے سکوں کے عوض دنیا میں
کتنے شاعر ہیں جو دن رات بکا کرتے ہیں

اک ترا شاعر خوددار نہیں بک سکتا
میری محبوب ترا پیار نہیں بک سکتا

میرے خاکوں میں ترے حسن کی تصویریں ہیں
جنبش زلف تری جنبش لب تیری ہے

میرا حق کیا ہے جو نیلام اٹھاؤں ان کا
میرے اشعار وہ دولت ہے جو اب تیری ہے

اب یہ سرمایۂ اشعار نہیں بک سکتا
میری محبوب ترا پیار نہیں بک سکتا

اپنے شعروں کا چمن نذر کیا ہے تجھ کو
اپنا انداز سخن نذر کیا ہے تجھ کو

دھڑکنیں میرے جواں دل کی بسی ہیں جس میں
میں نے وہ فکر وہ فن نذر کیا ہے تجھ کو

کسی فن کار کا کردار نہیں بک سکتا
میری محبوب ترا پیار نہیں بک سکتا