جب مجھے یہ خیال آتا ہے
ایک فن کار مر نہیں سکتا
اس کی تخلیق زندہ رہتی ہے
اس کا کردار مر نہیں سکتا
یاد آتے ہیں مجھ کو وہ فن کار
زندگی بھر جو زہر پی کے جئے
غم کی تصویر بن کے زندہ رہے
دہر فانی میں اپنے فن کے لئے
اور اس دہر کے نکموں نے
ان کی راہوں میں خار بکھرائے
جب یہ دشت جنوں میں اور بڑھے
ان کے دامن کے تار الجھائے
لاکھ روکا انہیں زمانے نے
چل دیے جس طرف چلتے رہے
چند راہیں نکال کر اپنی
جاوداں اپنا نام کرتے رہے
آج دنیا کے اس اندھیرے میں
جل رہے ہیں وہی چراغ جنہیں
آندھیوں نے جلایا تھا اک روز
زندگی کی حسین راہوں میں
ایک فن کار ہے چراغ وہی
جس کو کوئی بجھا نہیں سکتا
جاگتی جگمگاتی راہوں سے
کوئی جس کو ہٹا نہیں سکتا
بن کے فن کار سوچتا ہوں میں
اپنی ہستی کو جاوداں کر لوں
راز اپنا بتا کے دنیا کو
ساری دنیا کو راز داں کر لوں
موت آئے تو اس سے ہنس کے کہوں
میں ہوں فن کار مر نہیں سکتا
میری تخلیق زندہ رہتی ہے
میرا کردار مر نہیں سکتا
نظم
فن کار اور موت
فرید عشرتی