بارشیں پھر زمینوں سے ناراض ہیں
اور سمندر سبھی خشک ہیں
کھردری سخت بنجر زمینوں میں کیا بوئیے اور کیا کاٹئے
آنکھ کی اوس کے چند قطروں سے کیا ان زمینوں کو سیراب کر پاؤ گے
گندم و جو کے خوشوں کی خوشبو تمہارا مقدر نہیں
آسمانوں سے تم کو رقابت رہی
اور زمینوں سے تم بے تعلق رہے
ریڑھ کی ایک ہڈی پہ تم کو بہت ناز تھا
یہ گماں بھی نہ تھا
ایک دن بے لہو یہ بھی ہو جائے گی
فیصلے کی گھڑی آ گئی کچھ کرو
تتلیوں کے سنہرے ہرے سرخ نیلے پروں کے لیے
آنکھ کی اوس کے چند قطروں سے بنجر زمیں کے کسی گوشے میں
پھول پھر سے اگانے کی کوشش کرو
نظم
فیصلے کی گھڑی
شہریار