اب کے دیوار میں دروازہ رکھوں یا نہ رکھوں
اجنبی پھر نہ کوئی درپئے آزار آ جائے
ایک دستک میں مری ساری فصیلیں ڈھا جائے
اب کے دیوار میں دروازہ رکھوں یا نہ رکھوں
ایک اہرام نہ چن لوں صفت دود حریر
کوئی آئے تو بس اک گنبد در بستہ ملے
راز سر بستہ ملے
لاکھ سر پھوڑے صدا کوئی نہ مجھ تک پہنچے
قاصد موج ہوا کوئی نہ مجھ تک پہنچے
اب کے دیوار میں دروازہ رکھوں یا نہ رکھوں
سارے اندیشے مگر ایک طرف
ایک طرف تیری امید
جانے کس وقت ادھر تیری سواری آ جائے
اجنبی لاکھ کوئی میری فصیلیں ڈھا جائے
مجھ کو دیوار میں دروازہ لگانا ہوگا
نظم
فیصلہ
خورشید رضوی