ہوائیں لے گئیں وہ خاک بھی اڑا کے جسے
کبھی تمہارے قدم چھو گئے تھے اور میں نے
یہ جی سے چاہا تھا دامن میں باندھ لوں گا اسے
سنا تھا میں نے کبھی یوں ہوا ہے دنیا میں
کہ آگ لینے گئے اور پیمبری پائی
کبھی زمیں نے سمندر اگل دیے لیکن
بھنور ہی لے گئے کشتی بچا کے طوفاں سے
میں سوچتا ہوں پیمبر نہیں اگر نہ سہی
کہ اتنا بوجھ اٹھانے کی مجھ میں تاب نہ تھی
مگر یہ کیوں نہ ہوا غم ملا تھا دوری کا
تو حوصلہ بھی ملا ہوتا سنگ و آہن سا
مگر خدا کو یہ سب سوچنے کا وقت کہاں؟
نظم
فاصلہ
اختر الایمان