میں نے لوگوں سے بھلا کیا سیکھا
یہی الفاظ میں جھوٹی سچی
بات سے بات ملانا دل کی
بے یقینی کو چھپانا سر کو
ہر غبی کند ذہن شخص کی خدمت میں جھکانا ہنسنا
مسکراتے ہوئے کہنا صاحب
زندگی کرنے کا فن آپ سے بہتر تو یہاں کوئی نہیں جانتا ہے
گفتگو کتنی بھی مجہول ہو ماتھا ہموار
کان بیدار رہیں آنکھیں نہایت گہری
سوچ میں ڈوبی ہوئی
فلسفی ایسے کتابی یا زبانی مانو
اس سے پہلے کبھی انسان نے دیکھے نے سنے
ان کو بتلا دو یہی بات وگرنہ اک دن
او روح دن بھی بہت دور نہیں
تم نہیں آؤ گے یہ لوگ کہیں گے جاہل
بات کرنے کا سلیقہ ہی نہیں جانتا ہے
کیا تمہیں خوف نہیں آتا ہے
خوف آتا ہے کہ لوگوں کی نظر سے گر کر
حاضرہ دور میں اک شخص جیے تو کیسے
شہر میں لاکھوں کی آبادی میں
ایک بھی ایسا نہیں
جس کا ایمان کسی ایسے وجود
ایسی ہستی یا حقیقت یا حکایت پر ہو
جس تک
حاضرہ دور کے جبرئیل کی یعنی اخبار
دسترس نہ ہو رسائی نہ ہو
میں نے لوگوں سے بھلا کیا سیکھا
بزدلی اور جہالت کی فضا میں جینا
دائمی خوف میں رہنا کہنا
سب برابر ہیں ہجوم
جس طرف جائے وہی رستہ ہے
میں نے لوگوں سے بھلا کیا سیکھا
نظم
اپنے آپ سے
زاہد ڈار