باد و باراں سے الجھتا خندہ زن گرداب پر
اک جزیرہ تیرتا جاتا ہے سطح آب پر
گم کئی صدیوں کا اس میں جذبۂ تحقیق ہے
یہ جزیرہ آدمی کے ذہن کی تخلیق ہے
جا رہا ہے ہر گھڑی موجوں سے ٹکراتا ہوا
اپنے ہی انداز میں اپنا رجز گاتا ہوا
بحر کی امواج پر بہتے ہوئے شہر جمیل
ہر قدم تیرا لیے ہے تیری عظمت کی دلیل
آندھیوں کا زور، موجوں کی روانی تجھ میں ہے
ارتقائے ذہن انساں کی کہانی تجھ میں ہے
ہر بھنور میں اور ہر طوفان میں ساحل ہے تو
سینۂ امروز و فردا کا دھڑکتا دل ہے تو
تو تجلی ہی تجلی ہے اندھیری رات میں
روشنی کا ہے منارہ عالم ظلمات میں
رات آئی جاگ اٹھا انساں کا ذوق بے بساط
آخری اس کا ٹھکانہ مرد و زن کا اختلاط
کس قدر ارزاں ہوئے تہذیب کے لمعات نور
اللہ اللہ چار جانب روشنی کا یہ وفور
اس طرح سے میں نے کب دیکھی تھی مے خانے میں دھوم
عورتوں مردوں کا لڑکوں لڑکیوں کا یہ ہجوم
سب نشے میں مست ہیں لیکن ہیں کتنے با خبر
پھر رہے ہیں سب کے سب اک دوسرے کو تھام کر
احمریں ساغر، لب لعلیں، نگاہیں مے فروش
ہر طرف ہے ایک مستی، ہر طرف ہے اک خروش
اس جگہ ادراک سے بیگانہ کوئی بھی نہیں
سب ہیں فرزانے یہاں دیوانہ کوئی بھی نہیں
عقل کی اس بزم میں دیوانگی کا کام کیا
ڈھونڈھتا ہے تو یہاں آ کر دل ناکام کیا
اتنی آگاہی کسی کو ہو یہ مہلت ہی نہیں
کس کی باہیں کس کی گردن میں حمائل ہو گئیں
آ کے آغوش ہوس میں خود یہاں گرتا ہے حسن
کس قدر کچے سہارے ڈھونڈھتا پھرتا ہے حسن
جس سے خیرہ تیری آنکھیں ہیں چمک یورپ کی ہے
دیکھ اے آزادؔ! یہ پہلی جھلک یورپ کی ہے
نظم
یورپ کی پہلی جھلک
جگن ناتھ آزادؔ